ISLAMABAD: The World Bank (WB) has categorised the PTI-led Khyber Pakhtunkhwa on top among all four federating units of Pakistan for making progress in different areas of human development.
“Pakistan’s provinces have experienced very different levels of progress in human development over the last decade. Khyber Pakhtunkhwa seems to have made the most progress in a number of areas,” the WB’s report titled “Pakistan Development Update” states.
According to the WB, the gross primary enrolment rate in the KP increased three percentage points between 2010 and 2015, in a period when other provinces were deteriorating. The child immunisation rate in KP increased from 40 percent in 2005 to 53 percent in 2013 and 58 percent in 2015, the largest increase of all provinces over that time period.
Sindh, on the other hand, appears to be flat-lining across the same indicators. Child immunisation was lower in 2015 than it was in 2005 (45 and 46 percent respectively) and the gross primary enrolment rate also fell from 82 percent in 2010 to 79 percent in 2015.
Stunting in Sindh also remains very high. Sindh continues to face large differences in urban and rural outcomes, which are most stark in water and sanitation where only 31 percent of rural households have a flushing toilet compared with 97 percent of urban households. Only 23 percent of Sindh schools are equipped with basic facilities compared with 93 percent in Punjab, 44 percent in KP and 26 percent in Balochistan.
Punjab has had mixed success while Balochistan has struggled. The data suggests that Punjab is also stagnant in some of the social outcomes over recent years. Its improvement falls between Sindh and KP, having made steady progress on child malnutrition (particularly stunting), as well as child immunisation and rural sanitation while making little or no progress on enrolment rates and the quality of learning outcomes.
Balochistan has struggled to increase its particularly poor outcomes, seeing deterioration in learning outcomes (only 33 percent of year 5 children could read a story in 2014) and child immunisation. Gender equality is improving somewhat – from a low base – in education and the workforce progress on women’s empowerment is also mixed. While gender inequalities persist, women are slowly participating more in education and work. Female labour force participation is slowly increasing, albeit from a low base (from 19.3 percent in 2005 to 24.8 percent in 2014) and more girls are completing lower secondary.
The ratio of female to male literacy is steadily improving, with seven literate women for every 10 literate men in 2015. This ratio differs wildly across provinces, however, with Balochistan exhibiting only four literate women for every 10 literate men.
Population growth is a key challenge for service delivery. Looking forward, population growth presents a key challenge for all areas of human development. Systems are not expanding quickly enough to increase access and coverage to Pakistan’s fast-growing population. Service delivery strategies will need to take a long-term view if services are to capture a greater share of a growing population while also improving quality, the report concluded.
https://www.thenews.com.pk/print/164...says-WB-report
اسلام آباد(مہتاب حیدر) ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت ترقی کی شرح کے اعتبار سے سب سے بہتر ہے۔صوبے میں تعلیم ، صحت اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کی کارکردگی دیگر صوبوں سے نمایاں ہے۔
تفصیلات کے مطابق،ورلڈ بینک نے پی ٹی آئی کی سربراہی میں چلنے والی خیبر پختونخوا حکومت کوترقی کی شرح کے اعتبار سے سب سے بہتر قرار دیا ہے۔ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ’’پاکستان میں ترقی کی صورتحال‘‘ میں کہا ہے کہ پاکستان کے صوبوں کو انسانی ترقی کی حوالے سے گزشتہ دہائی میں مختلف صورتحال کا سامنا رہا ہے۔تاہم ، ایسا لگ رہا ہے کہ خیبر پختونخواحکومت بہت سے معاملات میں ترقی کی شرح میں سب سے آگے ہیں۔ورلڈ بینک کے مطابق، خیبر پختونخوا میںمجموعی پرائمری انرولمنٹ کی شرح میں 2010 سے2015کے درمیان تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔جب کہ دوسرے صوبوں میں ترقی کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کی شرح 2005 میں چالیس فیصد تھی جو 2013 میں 53 فیصد ، جب کہ 2015 میں 58 فیصد پر پہنچ گئی، یہ شرح تمام صوبوں میں سب سے زیادہ ہے۔
اس ضمن میں سندھ کی صورتحال کافی خستہ نظر آرہی ہے۔سندھ میں بچوں میں حفاظتی ٹیکوں کی شرح 2005 میں 46 فیصد تھی، جو 2015 میں کم ہو کر45 فیصد ہوگئی ہے۔اس کے علاوہ مجموعی پرائمری انرولمنٹ کی شرح جو کہ2010 میں 82 فیصد تھی وہ 2015میں کم ہوکر 79 فیصد رہ گئی ہے۔سندھ میں شعبدہ بازی بھی عرو ج پر رہی، جب کہ شہر ی اور دیہی علاقوں میں فرق بھی نمایاں رہا۔جس کا اظہار پانی اور حفظان صحت کے اصولوں میں واضح نظر آیا، جہاں صرف 31 فیصد دیہی گھروں میں لیٹرین موجود ہیں اس کے مقابلے میں شہروں میں 97 فیصد گھروں میںلیٹرین موجود ہیں۔
سندھ کے صرف 23 فیصد اسکولوں میں بنیادی سہولیات موجود ہیںاس کے مقابلے میں پنجاب میں 93 فیصد، خیبر پختونخوا میں 44 فیصد اور بلوچستان میں 26 فیصد اسکولوں میں بنیادی سہولیات موجود ہیں۔پنجاب میں مخلوط کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں تاہم بلوچستان جدوجہد کرتا دکھائی دیا۔اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ پنجاب حالیہ سالوں میں کچھ سماجی معاملات میں بھی جمود کا شکار رہا ہے۔اس کی ترقی کی شرح خیبر پختونخوا اور سندھ کے درمیان رہی۔بچوں کی غذائی قلت کے حوالےسے پنجاب میں بہتری واقع ہوئی، اسی طرح بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کی شرح اور دیہی علاقوں میںصفائی ستھرائی میں بھی بہتری ہوئی، تاہم بچوں کے انرولمنٹ اور سیکھنے کی شرح میں کئی خاص ترقی دیکھنے میں نہیں آئی۔بلوچستان ترقی کی معاملے میں جدو جہد کرتا دکھائی دیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سیکھنے کے عمل کے حوالے سے5 سال تک کی عمر کے بچوں میں سے صرف 33فیصدہی 2014 تک کہانیاں پڑھنے کے قابل تھے۔
اسی طرح حفاظتی ٹیکوں کی شرح کی حالت بھی دگرگوں رہی۔صنفی مساوات میں کسی حد تک بہتری ہوئی۔خواتین کو بااختیار بنانےاور ان کی تعلیم کے حوالے سے ترقی کی شرح بھی ملی جلی رہی۔جب کہ صنفی عدم استحکام برقرار رہا۔خواتین کے تعلیم اور دیگر شعبہ جات میں شمولیت میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔خواتین کی مختلف شعبہ جات میں شمولیت کے باعث ان کی مزدوری قوت میں معمولی ترقی ہوئی۔یہ شرح 2005 میں 19.3 فیصد تھی جو کہ 2014 میں بڑھ کر 24.8 فیصد ہوگئی۔لوئر سیکنڈری اسکولوں میں بچیوں کی تعداد میں تھوڑا اضافہ ہوا۔مردوں کے مقابلے عورتوں کی شرح خواندگی میں بھی بہتری ہوتی دکھائی دی۔2015 تک دس مردوں کے مقابلے میں 7 خواتین پڑھی لکھی ہیں۔اس حوالے سے دیگر صوبوں کی شرح میں واضح فرق ہے تاہم ، بلوچستان میں ہر دس مردوں کے مقابلے میں چار خواتین خواندہ ہیں۔ سہولیات کی فراہمی میں آبادی میں اضافہ ایک مشکل چیلنج ہے۔ انسانی ترقی میں تمام حوالوں سے یہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔نظام اس طرز پر اور تیزی سے ترقی نہیں کررہا، جس کے ذریعے پاکستان کی بڑھتی آبادی کی شرح سے ترقی ممکن نہیں ہورہی۔رپورٹ کے مطابق اگر بڑھتی آبادی کے مطابق سہولیات فراہمی میں اضافہ کرنا ہے توسہولیات کی فراہمی کے لائحہ عمل کو دو رس جائزہ کی ضرورت ہے
0 comments:
Post a Comment