گزشتہ 5 سال دنیا کی تاریخ کے گرم ترین سال تھے، رپورٹ
جنیوا:(ڈیلی خبر) عالمی تنظیم برائے موسمیات (WMO) نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ 5 سال دنیا کی تاریخ میں لگاتار گرم ترین سال رہے ہیں جب کہ ممکنہ طور پر موجودہ سال میں بھی گرمی کے حوالے سے ایک نیا ریکارڈ قائم ہونے کے قریب ہے۔اس خبر سے ماحولیاتی تحفظ کے حلقوں میں تشویش کی نئی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ اس رپورٹ میں جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ 2011 سے 2015 تک 5 سال میں لگاتار گرمی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں اور 2016 میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ گرمی میں اضافے کی بڑی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں۔
حالیہ برسوں کے دوران توانائی کی پیداوار میں رکازی ایندھن (فوسل فیول) یعنی کوئلے، تیل اور گیس کے استعمال میں جس طرح سے اضافہ ہوا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئندہ برسوں میں شدید گرمی کا امکان بھی 10 گنا تک بڑھ گیا ہے۔شدید گرمی کے باعث دنیا بھر میں اموات کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے اور مذکورہ رپورٹ کے مطابق، مشرقی افریقا میں 2011 کے دوران خشک سالی کے باعث ہونے والی تقریباً 2 لاکھ 58 ہزار اموات بھی اسی گرمی کا نتیجہ تھیں جب کہ 2015 میں ہندوستان اور پاکستان میں گرمی ہی کی شدید اور غیرمعمولی لہر سے (سرکاری اعداد و شمار کے مطابق) 4100 اموات واقع ہوئی تھیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرمی میں اضافے کے سبب مشرقی افریقی ممالک میں ان 5 برسوں کے دوران ڈھائی لاکھ سے زیادہ اضافی اموات ہوئی ہیں جب کہ انڈیا اور پاکستان میں گرمی کی لہروں میں 4100 سے زیادہ افراد کی موت ہوئی ہے۔رہے کہ بین الاقوامی ماحولیاتی مطالعات میں 1961 سے 1990 کے دوران اوسط عالمی درجہ حرارت کو ’’طویل مدتی اوسط‘‘ بھی قرار دیا جاتا ہے اور پچھلے 5 سال کا اوسط عالمی درجہ حرارت اس سے بھی 0.57 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔ اندازہ ہے کہ 2016 کے اعداد و شمار شامل ہوجانے کے بعد یہ اوسط اور بھی زیادہ ہوجائے گا۔تحفظِ ماحول کے عالمی معاہدوں میں یہ ہدف رکھا گیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت کو صنعتی عہد سے پہلے کے عالمی اوسط سے زیادہ بڑھنے نہ دیا جائے اور کوشش کی جائے کہ اوسط عالمی درجہ حرارت میں اضافہ 2 ڈگری سے کم رہے۔ لیکن عالمی تنظیم برائے موسمیات کی تازہ رپورٹ اس ضمن میں اقوامِ عالم کی بدترین ناکامی کو ظاہر کررہی ہے جس سے مستقبل کے بارے میں خدشات بھی سنگین تر دکھائی دیتے ہیں
0 comments:
Post a Comment